no-image

IDA Waghera Companies Ke Zariye Online Karobar Aur Invest Karne Ka Hukum?

آئی ڈی اے (IDA) وغیرہ کمپنیوں کے ذریعے آن لائن کاروبار اور انویسٹ کرنے کا حکم

مجیب:محمدعرفان مدنی

مصدق:مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Grw-786

تاریخ اجراء:07رمضان المبارک1444ھ/29مارچ 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ انٹر نیٹ پر آن لائن ٹریڈنگ کے حوالے سے IDA نام کی  ایک ایپلیکیشن متعارف ہوئی ہے،جو جدید عالمی بلاک چین مالیاتی پروگرام کے  تحت کام کر رہی ہے اور اس  کا دار و مدارڈیجیٹل کرنسی پر ہے،اس  کے کام کرنے کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ:

   (الف)سب سے پہلے اکاؤنٹ تشکیل دے کر اپنی ذاتی معلومات جمع کروا کر رجسٹری کروانی ہوتی ہے،پھر ٹریڈنگ کے لیے تین سو USDT (یہ ڈیجیٹل ڈالرکی کرنسی ہے)خرید کر انویسٹمنٹ کرنی ہوتی ہے۔ 300 USDT کی جتنی پاکستانی کرنسی ہوتی ہے ،وہ اکاونٹ میں جمع کروائی جاتی ہے،تواس کے بدلے 300 USDTاکاونٹ میں آجاتے ہیں ۔

   (ب)ٹریڈنگ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کلِکس کرنے ہوتے ہیں،اور  روزانہ آمدنی کا دار و مدار کلِکس پر ہوتا ہے،اولاًمقررہ کلِکس زیادہ مقدار میں(یعنی 30)  ہوتے ہیں،پھر بعد میں صارف کا ٹائم بچانے کے لیے کمپنی کلِکس کی مقدار کم کردیتی ہے۔

ایک کلِک کرنے پر پہلی ٹریڈنگ تین منٹ میں مکمل ہو جاتی ہے اور دوسرا کلِک  تین منٹ سے پہلے یعنی پہلی ٹریڈنگ مکمل ہونے سے پہلے نہیں ہوتا۔

   ہر کلِک کے ساتھ ساتھ ہی ٹریڈنگ کے ساتھ پرافٹ ملتا جاتا ہے اور یہ کلِکس ہر روز ری نیو ہوتے ہیں ، ایک دن کے کلِکس مکمل کیے بغیر پیسے نہیں نکلوائے جا سکتے۔

   یہ کلکس دراصل ڈیجیٹل کرنسی کی خریداری ہوتی ہےیعنی  ڈیجیٹل کرنسی کاریٹ شوہورہاہوتاہے ،جب اس پر ایک کلک کیاتوڈیجیٹل  کرنسی خریدی گئی،پھرتین منٹس کے اندراندرجیسے ہی اس کرنسی کاریٹ خریدی گئی مقدارسے اوپرہوتاہے،کمپنی نے جوکمپیوٹرلگارکھے ہیں ،وہ اسی وقت اسے سیل کردیتے ہیں اورجوپرافٹ آتاہے ،وہ اس کللک کرنے والے کے اکاونٹ میں چلاجاتاہے۔

   اورکلکس کے ذریعے جوٹریڈنگ ہوتی ہے ،اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

    IDA بین الا قوامی اثر ورسوخ کو بڑھانے کے لیے خدمات فراہم کرے گا، زیادہ سے زیادہ صارفین کو سرمایہ کاری کے میدان میں زیادہ اور زیادہ مستحکم منافع حاصل کرنے میں مدد کرے گا، مارکیٹ کے رجحانات کا تجزیہ کرے گااور گاہکوں کو بہتر کام کرنے میں مدد کرے گا۔

    IDA مقداری تجارت کیسے کام کرتی ہے؟ دنیا بھر میں بہت سے کرپٹو کرنسی ایکسچینجز ہیں۔ ہر ایکسچینج کے مختلف تجارتی حجم میں صارف کی مختلف ضروریات ہوتی ہیں، اور مختلف مارکیٹیں مختلف ایکسچینجز پر ایک ہی کرپٹو کرنسی کی قیمت میں فرق کا باعث بنتی ہیں۔ IDA کی دنیا کی معروف مصنوعی ذہانت ٹریڈنگ ٹیکنا لوجی  کے ذریعے، بڑے ایکسچینجز کاڈیٹا 24 گھنٹے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ کم خریدیں، زیادہ بیچیں ، درمیانی قیمت کا فرق کمائیں ، صارفین کو مستحکم آمدنی حاصل کرنے میں مدد کریں۔

   مثال کے طور پر ، Binance ایپ پر BTC کی موجودہ قیمت USDT20000 ہے، اور OKX ایپ پر BTC 20100USDT ہے۔IDA مصنوعی ذہانت والا روبوٹ خود بخود مارکیٹ کی نگرانی اور تجزیہ کرتا ہے تا کہ صارفین کو Binance سے خریدنے اور OKX پر فروخت کرنے میں مدد ملے، اور IDA اس لین دین سے حاصل ہونے والے منافع کا 50 فیصد لے گا۔ بقیہ 50 فیصد صارف کی ملکیت ہے۔

    (ج)پھر چونکہ یہ ایپ بلاک چین مالیاتی پروگرام کے تحت کام کررہی  ہے تواکاؤنٹ پرمننٹ کروانے  اور اکاؤنٹ سے پیسے نکلوانے کے لیے صارف کا مزید تین بندوں کو ایڈ کروانا، ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹ میں تین سو USDTکا ہونا ضروری ہے ،اگر صارف معینہ مدت کے اندر اندر مزید تین بندوں کو ایڈ نہیں کرواتا، تو اس کا اکاؤنٹ ختم کر دیا جاتا ہے اور اکاؤنٹ میں رکھے پیسے بھی اس وقت تک صارف کو نہیں ملتے،جب تک کہ وہ تین بندوں کوایڈنہ کروائے اوراکاونٹ میں300 USDTنہ ہوں ۔

    (د)مزید لوگوں کو ایڈ کروانے  کی صورت میں صارف کو اضافی کمیشن دیا جاتا ہے اور اس کا تناسب بھی لوگوں کو ایڈ کروانے کے حساب سے ہوتا ہے یعنی صارف   اس پروگرام میں مزید اپنی کوشش سے جتنے بندوں کو شامل کرے گا ،اس کے حساب سے اسے اضافی کمیشن ملے گا اور اسے اضافی انعام کا نام دیا جاتا ہے۔

   اور اس چین سسٹم میں  نئے شامل کروائے گئے لوگوں کے پرافٹ سے حصہ کاٹ کر صارف کو نہیں دیا جاتا، بلکہ ہر بندے کو اپنی ٹریڈنگ کے حساب سے پرافٹ پورا ملتا ہے اور اصل صارف  کو مزید بندے شامل کرنے کا پرافٹ کمپنی اپنی طرف سے بطورانعام   دیتی ہے۔

    (ہ)یاد رہے۔۔۔!اس طرح کی تمام کمپنیاں و ایپس(Apps)، غیر سرکاری ہیں ،یہ کمپنیاں و ایپس کب تک چلیں گی ،کب بند ہو جائیں ،کوئی کنفرم نہیں ہوتا اور صارف کے اثاثے بھی غیر محفوظ ہوتے ہیں۔جب چاہیں یہ کمپنیاں صارف کااکاونٹ بلاک کردیں اوراس کے اکاونٹ میں جتنی رقم ہے، وہ ساری ضبط کرلیں ۔

   شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس  ایپلیکیشن  کے ذریعے آن لائن کاروبار کرنا،اس ایپلیکیشن میں انویسٹ کرنا ،جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں  مذکورتفصیلات کے مطابق IDAاوراس جیسی  دوسری ایپس (Apps)جن میں مذکورہ طریقے کے مطابق ٹریڈنگ ہوتی ہے،ان میں رقم انویسٹ کرنا،ناجائزوحرام اورگناہ ہے ۔جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

    (1)جوا:

   (الف)سوال میں مذکورتفصیل کے مطابق  اس طرح کی ایپس میں صارف کی رقم محفوظ نہیں ہوتی ،اس طرح کی ایپس اورکمپنیاں جب چاہیں،صارف کااکاونٹ بلاک کرکے اس کاساراسرمایہ ضبط کرسکتی ہیں،تویہاں اپنی رقم کوامیدموہوم کے ساتھ رِسک پرپیش کرناہے کہ یاتونفع ہوجائےگایااپنامال بھی چلاجائے گااوریہ قمار( جوا)ہےاورجوئے کے متعلق قرآن وحدیث میں سختی سے ممانعت واردہے اور جوا ناجائز و حرام ، گناہ اورشیطانی کام ہے۔

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”اﷲ عزوجل مسلمانوں  کو شیطان کے فریب سے بچائے، آمین! اس اجمال کی تفصیل مجمل یہ ہے کہ حقیقت دیکھئے تو معاملہ مذکورہ بنظر مقاصد ٹکٹ فروش و ٹکٹ خراں  ہر گز بیع و شراوغیرہ کوئی عقد شرعی نہیں،  بلکہ صرف طمع کے جال میں  لوگوں  کو پھانسنا اور ایک امید موہوم پر پانسا ڈالنا ہے اور یہی قمار ہے۔(فتاوی رضویہ،ج 17،ص 330،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   (ب)اسی طرح  رقم واپس لینے کے لیے تین مزیدافرادایڈ کروانے کی شرط والی صورت بھی جُواکی ہے کہ تین مزیدافرادایڈکرلینا،یقینی نہیں، بلکہ موہوم ہے ،اب  نفع موہوم کے لیے انسان ایساکرے گااوربعدمیں نہ کرپایاتورقم ضائع ہوجائے گی ۔

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا:’’ایک کمپنی نئی کلکتہ میں کھلی ہے، جو اپنے فارم کو اس طرح دیتی ہے ،پہلے فارم پر نام درج کرا کر ایک روپیہ روانہ کرو ،فارم کے ملنے پر چہار فارم روانہ کیے جائیں گے ،ان چار فارموں کو ایک ایک روپیہ میں بیچ کر کمپنی کو فارم جس میں خریدنے والے کے نام ہوں اور چار روپے روانہ کرو ،فارم بھیجنے پر کمپنی ان چار شخصوں کے نام فارم چار چار روانہ کرے گی ،وہ بھی ایک روپیہ میں فروخت کریں گے ،اسی طرح سلسلہ بسلسلہ ایک ہزار چوبیس فارم فروخت ہونے کے بعد کمپنی ایک ہزار چوپیس روپے متعدد مرتبہ کر کے دینے کا وعدہ کرتی ہے ،جنہوں نے اس کام کو انتہاء کو پہنچایا انہیں روپے مل رہیں ہیں،اس کمپنی کا یہ بھی اعلان ہےکہ سلسلہ منقطع نہیں ہونا چاہئے ،منقطع ہونے پر روپیہ نہیں روانہ کیا جائے گا ،اس میں شریک ہونا ،جائز ہے یا نہیں؟جوا وغیرہ تو نہیں ہے؟‘‘

   اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ  فرماتے ہیں:”یہ جوا اور حرام ہے کہ ایک روپیہ دےکر اس رقم کثیر کے ملنے کی خواہش ہوتی ہے اور اس کے ملنے نہ ملنے دونوں کا احتمال ہوتا ہے ،اگر فارم فروخت ہو گئے ،تو رقم ملے گی، ورنہ روپیہ گیا ،اس میں شرکت حرام ہے۔‘‘ (فتاوی امجدیہ،ج 2،حصہ 4،ص 234،مکتبہ رضویہ،کراچی)

    (ج)اسی طرح پرافٹ نکالنے کے لیے تیس کلکس کی شرط بھی جوئے والی صورت ہے کہ تیس پورے کرلینا،یقینی نہیں ۔اگرتیس پورے ہوگئے،توساراپرافٹ مل جائے گا،ورنہ پچھلابھی ضائع ہوجائے گا۔

   جوئے کی حرمت وغیرہ پردلائل:

   ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یَسْـئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَاترجمہ کنزالایمان:’’تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں، تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے۔‘‘( پارہ02،سورۃ البقرہ، آیت 219)

   اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَترجمہ کنز الایمان:’’اے ایمان والو! شراب اور جوااور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔‘‘(القرآن ، پارہ 7،سورۃ المائدہ ، آیت 90)

   محیط برہانی ، بحر الرائق اور تبیین الحقائق میں ہے:” واللفظ للثالث ،القمار من القمر الذی  يزاد تارة، وينقص اخرى، وسمي القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه، ويجوز ان يستفيد مال صاحبه۔۔۔وهو حرام بالنص“ترجمہ:قمار ،قمر سے مشتق ہے جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے ، قمار کو قمار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں یہ امکان ہوتاہے کہ جوئےبازوں میں سے ایک کامال دوسرے کے پاس چلاجائے اوریہ بھی امکان ہوتاہے کہ وہ اپنے ساتھی کامال حاصل کرلے، اور یہ نص سے حرام ہے ۔(تبیین الحقائق ، مسائل شتی ، ج6، ص 227، مطبوعہ ملتان)

   المبسوط للسرخسی میں ہے:’’ ثم ھذا تعلیق استحقاق المال بالخطر وھو قمار، والقمار حرام فی شریعتنا‘‘ ترجمہ:پھریہ مال کے مستحق ہونے کوخطرپرمعلق کرناہے اوریہ قمارہے اورقمارہماری شریعت میں حرام ہے ۔(المبسوط للسرخسی ،ج7،ص76،دارالمعرفہ،بیروت )

    (2)اپنے آپ کواوردوسروں کوضررمیں ڈالنا:

   اس طریقہ کارمیں اپنے آپ کواوردوسروں کوضررمیں ڈالناہے یعنی یہ اکاؤنٹ بناکرانسان اپنے آپ کوضررمیں ڈالتاہے کہ اگرشرائط پوری نہ ہوسکیں،تواپنی رقم ضائع ہوجائے گی اوردوسروں کوایڈکرکے دوسروں کوضررمیں ڈالتاہے کہ دوسرے اگرشرائط پوری نہ کرپائے،توان کے پیسے ضائع  ہوجائیں گے اور حدیث پاک میں اپنے آپ کوضررمیں ڈالنے سے بھی منع فرمایاگیاہے اوردوسروں کوبھی ضررمیں ڈالنے سے منع فرمایاگیاہے ۔

   رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’لاضرر ولاضرار فی الاسلام ‘‘ترجمہ: اسلام میں نہ اپنے آپ کو ضررمیں ڈالناہے، نہ دوسرے کو ضرر دینا۔(المعجم الاوسط ، ج5، ص283، دار الحرمین، قاھرہ)

    (3)غرر(دھوکا):

   (الف)اکاؤنٹ اوپن کرنے کے لیے جوUSDTخریدے جاتے ہیں، وہ ڈیجیٹل کرنسی ہے اور ڈیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت شرعا جائز نہیں کہ غرر(دھوکے)پرمشتمل ہے ،کیونکہ اس کی ضمانت کسی کے پاس نہیں ،کوئی معلوم نہیں کہ کب یہ ختم کردی جائے اوررقم انویسٹ کرنے والوں کی رقم ضائع جائے اورحدیث پاک میں اس طرح کی خریدوفروخت کہ جس میں غرر(دھوکا )پایاجائے ،خریدی گئی چیزکاحصول یقینی نہ ہووغیرہ ، سے ممانعت فرمائی گئی ہے ۔

   سنن ابی داؤد میں ہے:”عن أبي هريرة:أن النبي صلى اللہ عليه وسلم نهى عن بيع الغرر“ ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا۔(سنن ابی داؤد،کتاب البیوع ،ج 3،ص 254،حدیث 3376، المكتبة العصريہ، بيروت)

   مرقاۃ المفاتیح میں ہے:” (وعن بيع الغرر)۔۔۔أي ما لا يعلم عاقبته من الخطر الذي لا يدرى أيكون أم لا كبيع الآبق والطير في الهواء والسمك في الماء والغائب المجهول “ترجمہ:(اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا)یعنی اس چیز کی بیع سے منع فرمایا جس کا انجام کار معلوم نہ ہو اس خطرے کی وجہ سے کہ جس کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ پایا جائے گا یا نہیں،مثلاً: بھاگے ہوئے غلام کی بیع یا ہوا میں اڑتے پرندوں کی بیع یا پانی میں مچھلی کی بیع یا مجہول غائب چیز کی بیع۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب البیوع،ج 5،ص 1934،دار الفكر، بيروت)

   نیزیہ بھی اپنے مال کورسک پرپیش کرکے اپنے آپ کو ضررمیں ڈالنے والی صورت ہے ۔

    (ب)کلکس کے ذریعےجوٹریڈنگ ہوتی ہے ،وہ بھی ڈیجیٹل کرنسی کی ہے، لہذایہ بھی ناجائزہے ۔

    (4)شرط فاسد:

    (الف)اوپرمذکورتفصیل کے مطابق  کمپنی  کمیشن پرکام کررہی ہے یعنی کمپنی کے ساتھ جوایگریمنٹ ہوتاہے، وہ عقداجارہ ہوتاہے اورایسے عقدمیں کوئی ایسی شرط لگانا ،جس کاعقدتقاضانہ کرے اوراس میں ایگریمنٹ کرنے والوں میں سے کسی ایک کانفع ہو،ایسی شرط ناجائزاورعقدکوفاسدکرنے والی ہوتی ہےاوراس عقدمیں اکاونٹ پرمننٹ رکھنے کے لیے معینہ مدت کے اندراندرتین مزیدافرادکوایڈکروانے کی شرط ہوناکہ اگرنہ کروائے ،تواب اکاؤنٹ بلاک ہوجائے گااورصارف  اس کمپنی کی مزیدخدمات حاصل نہیں کرسکے گا ، اس شرط میں کمپنی کانفع ہے اورعقداس کاتقاضابھی نہیں کرتا  ، لہٰذایہ شرط فاسدہے ،جس سے عقدفاسد ہوجاتاہے اورایگریمنٹ کرنے والے دونوں افرادگنہگارہوتے ہیں ۔

   حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:”ان  النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن بیع و شرط“ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ  وسلم نے خریداری اور شرط سے منع فرمایا ہے۔(المعجم الاوسط للطبرانی، باب العین ، من اسمہ عبد اللہ، ج4،ص335،مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)

   اورعقداجارہ بھی عقدبیع کی قسم سے ہے ۔ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:’’والبيع والإجارة أخوان،لأن الإجارة بيع المنافع“ترجمہ: اوربیع اوراجارہ دونوں ایک ہی قسم سے ہیں،کیونکہ اجارہ،منافع کی بیع ہے ۔(العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ،کتاب الاجارۃ،ج 2،ص 140،دار المعرفہ،بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے:’’(يفسد الإجارة الشروط) لأنها بمنزلة البيع۔ ألا ترى أنها تقال وتفسخ فتفسدها الشروط التي لا يقتضيها العقد كالبيع“ترجمہ:شرطیں ،اجارے کو فاسد کر دیتی ہیں ،کیونکہ وہ بیع کےحکم میں ہے ،کیا تو دیکھتا نہیں کہ اس کااقالہ ہوتاہے اوراسےفسخ کیاجاتاہے ،پس ایسی شرائط جن کا عقد تقاضا نہیں کرتا، وہ اجارے کو فاسد کردیتی ہیں ، جیسا کہ بیع کو فاسد کر دیتی ہیں۔(تبیین الحقائق،باب الاجارۃ الفاسدہ،ج05،ص121، مطبوعہ  ملتان)

   تبیین الحقائق میں ہے:”أن كل شرط لا يقتضيه العقد وهو غير ملائم له ولم يرد الشرع بجوازه ولم يجز التعامل فيه وفيه منفعة لأهل الاستحقاق مفسد“ترجمہ:ہر وہ شرط جس کا نہ تو عقد تقاضا کر رہا ہو اور وہ عقد کے مناسب بھی نہ ہو ،شرع سے اس کا جواز بھی ثابت نہ ہو اور اس پر تعامل بھی نہ ہو اور اس میں اہل استحقاق کی منفعت ہو، تو ایسی شرط بیع کو فاسد کر دیتی ہے۔ (تبیین الحقائق،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج 4،ص 57، مطبوعہ ملتان)

   (ب)اوپرمذکورتفصیل کے مطابق جب ہرکلک پرکرنسی کی خریداری ہوتی ہے اورتین منٹ کے اندروہ بمع پرافٹ بِک جاتی ہے اوروہ پرافٹ  صارف  کے اکاونٹ میں ایڈہوجاتاہے، تواب اس پرافٹ کوحاصل کرنے کے لیے مزیدکلکس کرنےیعنی خریداری کرنے کی شرط لگانایہ شرط فاسدہے  کہ یہ شرط بھی ایسی ہے کہ جس کاعقدتقاضانہیں کرتااوراس میں کمپنی کانفع بھی ہے کہ اسے ہاف پرافٹ ملے گا۔

    (5)سود:

   اس عقدمیں سودکاعنصربھی پایاجاتاہے، کیونکہ  اس عقدمیں شروط فاسدہ پائی جاتی ہیں  اورشروط فاسدہ سودکے حکم میں ہیں کہ  اس میں عقدمعاوضہ میں ایک ایگریمنٹ کرنے والے کوبغیرکسی معاوضے کے  شرط والانفع  مل رہاہے اورایسانفع سودہوتاہے اورسودکوقرآن وحدیث میں ناجائزوحرام فرمایاہے۔

   اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواؕ ترجمہ کنزالایمان : ’’اللہ نے حلال کیا بیع کواور حرام کیاسودکو۔‘‘(پارہ 3، سورۃ البقرہ، آیت 275)

   امام مسلم بن حجاج قشیری(المتوفی261ھ) سے مروی ہے:’’عن جابر قال:لعن رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم آکل  الربو  وموکلہ وکاتبیہ وشاھدیہ وقال: ھم سواء‘‘ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  سود کھانے والے پر ،سود کھلانے والے پر ، اس کا کاغذ لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا:یہ سب برابر ہیں۔(الصحیح لمسلم ،صفحہ620،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے:”حقيقة الشروط الفاسدة هي زيادة ما لا يقتضيه العقد ولا يلائمه فيكون فيه فضل خال عن العوض، وهو الربا بعينه“ترجمہ:شروط فاسدہ کی حقیقت عقد میں ایک ایسی زیادتی کی ہے، جس کا عقد تقاضا نہیں کرتا اور نہ ہی وہ عقد کے مناسب ہوتی ہے ،لہذا یہ عقد میں بغیر عوض کے زیادتی ہوتی ہے اور یہ بعینہٖ سُود ہے۔ (تبیین الحقائق،کتاب البیوع،ج 4،ص 131، مطبوعہ ملتان)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

please wait...